امریکہ اور وینیزویلا کے درمیان تناؤ اس وقت نئی حدوں کو چھو رہا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینیزویلا کے صدر نیکولاس مادورو کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا سخت الٹی میٹم دے دیا۔ میامی ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، واشنگٹن نے ایک خصوصی فون کال میں مادورو، ان کی اہلیہ اور بیٹے کے لیے محفوظ انخلا کی پیشکش کی، لیکن شرط یہ تھی کہ وہ فوراً استعفیٰ دیں۔ تاہم مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے جب مادورو نے اپنے اور اپنے قریبی حلقے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مکمل معافی کا مطالبہ کیا، جسے امریکہ نے صاف مسترد کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق، مادورو کی ٹیم نے فوج پر کنٹرول برقرار رکھنے کی شرط بھی رکھی، جسے واشنگٹن نے قبول نہیں کیا۔ امریکہ نے واضح کیا کہ مادورو کو فوری طور پر اقتدار چھوڑنا ہوگا۔ اسی تعطل کے چند گھنٹوں بعد ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وینیزویلا کی فضائی حدود “مکمل طور پر بند” سمجھی جائیں، جس نے ممکنہ امریکی کارروائی کے خدشات کو مزید بڑھا دیا۔
سابق وینیزویلین سفارتکار وینیسا نیومن کے مطابق، فضائی حدود کی بندش اس بات کا مضبوط اشارہ ہے کہ امریکہ ہدفی کارروائیوں کی تیاری کر رہا ہے۔ نیومن نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ برسوں میں خفیہ آپریشنوں کے ذریعے اہم اہداف کی نشاندہی ہو چکی ہے اور یہ صورتحال “پکڑو یا ختم کرو” نوعیت کی ہو سکتی ہے۔
امریکہ نے حال ہی میں وینیزویلا سے منسلک کارٹیل “کارٹیل ڈی لوس سولیس” کو بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، جس سے دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وینیزویلا کی فوج شدید کمزور ہے اور مادورو کے پاس اب محدود آپشنز باقی ہیں۔
صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، اور مبصرین کے مطابق کوئی بھی بڑا فیصلہ خطے کی سیاست میں غیر معمولی تبدیلی لا سکتا ہے۔شرائط و ضوابط
