تحریر: غازی بابر
بلوچستان… وہ سرزمین جسے کبھی پسماندگی، شورش اور محرومی کی علامت کہا جاتا تھا، آج نئی سمت، نئی سوچ اور نئے عزم کے ساتھ اُبھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
یہ وہی بلوچستان ہے جہاں کبھی علم کے چراغ مدھم پڑ چکے تھے، لیکن آج وہی چراغ دوبارہ روشن ہو رہے ہیں۔
یہ وہ بلوچستان ہے جہاں تعلیم کے میدان میں وہ انقلاب برپا ہو رہا ہے جو آنے والی نسلوں کی قسمت بدل دے گا۔
اعداد و شمار اس تبدیلی کی گواہی دیتے ہیں۔
بلوچستان بھر میں پندرہ ہزار (15,000) اسکول ہیں۔
ان میں سے تین ہزار چھے سو (3,600) اسکول مختلف وجوہات اور اساتذہ کی کمی کی بنا پر بند ہو گئے تھے۔
لیکن آج یہ حقیقت ہے کہ انہی میں سے تین ہزار دو سو (3,200) اسکول اساتذہ کی فوری تقرری کے ساتھ دوبارہ کھول دیے گئے ہیں،
جہاں اب روز صبح بچوں کے قہقہے، اساتذہ کی رہنمائی اور علم کی روشنی گونجتی ہے۔
باقی چار سو (400) اسکولوں کی بحالی پر تیزی سے کام جاری ہے — اور یہ دن دور نہیں جب پورا بلوچستان تعلیم کی روشنی میں جگمگاتا نظر آئے گا۔
یہ کامیابی کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک اجتماعی عزم، مضبوط قیادت اور مربوط حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کی بصیرت افروز قیادت نے تعلیم کو سیاست نہیں، خدمتِ خلق کے جذبے کے ساتھ اپنایا۔
انہوں نے بجٹ میں تعلیم کو ترجیح دی، اساتذہ کی بھرتی کے عمل کو شفاف بنایا، اور صوبے کے ہر کونے میں اسکولوں کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے۔
ان کے فیصلوں نے یہ ثابت کیا کہ اگر نیت درست ہو تو سب سے دشوار راستے بھی آسان ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح چیف آف آرمی اسٹاف کی سرپرستی اور عزم نے بلوچستان میں امن و استحکام کی وہ فضا پیدا کی جس میں تعلیمی ادارے دوبارہ سانس لے سکے۔
ان کی قیادت میں فوج اور سول حکومت کے درمیان ہم آہنگی نے ترقی کے عمل کو نئی رفتار دی۔
اس کے ساتھ کور کمانڈر بلوچستان، آئی جی ایف سی ساؤتھ اور آئی جی ایف سی نارتھ نے اپنے اپنے دائرۂ عمل میں جس محنت، خلوص اور جذبے سے کام کیا، وہ لائقِ تحسین ہے۔
ان کی نگرانی میں نہ صرف اسکولوں کی بحالی ممکن ہوئی بلکہ مقامی آبادی کے اعتماد میں اضافہ ہوا، جس سے عوامی شرکت نے اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
حکومتِ بلوچستان نے ایک اور اہم اور جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے —
انہوں نے صوبے بھر کے اساتذہ کی جامع اسکریننگ کی ہے تاکہ ان عناصر کی نشاندہی کی جا سکے جو تعلیم کے نام پر ریاست مخالف بیانیہ یا علیحدگی پسند نظریات پھیلا رہے تھے۔
ایسے اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی گئی، اور ان کی جگہ محبِ وطن، تعلیم یافتہ اور ذمہ دار اساتذہ کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔
یہ اقدام نہ صرف تعلیمی اداروں کو منفی اثرات سے پاک کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کے ذہنوں میں وطن دوستی، یکجہتی اور مثبت سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے۔
یہ اصلاحی عمل بلوچستان کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ بنانے کی سمت ایک تاریخی قدم ہے۔
آج بلوچستان میں جو تبدیلی دکھائی دیتی ہے، وہ دراصل تعلیم کی جیت ہے۔
یہ اس بچے کی مسکراہٹ کی جیت ہے جو برسوں بعد اسکول جا رہا ہے۔
یہ اس ماں کی آنکھوں کی روشنی ہے جو اپنے بیٹے کو قلم پکڑتا دیکھ کر دعائیں دے رہی ہے۔
یہ اس استاد کی فتح ہے جو ویران کلاس روم میں پھر سے درس و تدریس کا عمل شروع کر رہا ہے۔
اب بلوچستان کی فضا میں مایوسی نہیں، امید کا رنگ ہے۔
یہ وہ نیا بلوچستان ہے جو اپنی نسلوں کو کتاب، قلم اور علم سے جوڑ رہا ہے۔
یہ وہ بلوچستان ہے جو امن، تعلیم اور ترقی کی مثل بن چکا ہے۔
یہ وہ بلوچستان ہے جو اپنی محرومیوں کو ماضی کے حوالے کر چکا ہے —
اور آج اعتماد سے کہتا ہے:
بلوچستان جل نہیں رہا، بلوچستان بدل رہا ہے۔