رام اللہ: فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے تین مراحل پر مشتمل پانچ سالہ منصوبہ پیش کر دیا ہے جس کا مقصد جنگ سے تباہ شدہ غزہ کو دوبارہ آباد، مربوط اور ترقی یافتہ حصہ بنانا ہے۔
وزیراعظم محمد مصطفٰیٰ نے اقوامِ متحدہ اور سفارتی نمائندوں سے ملاقات میں بتایا کہ یہ منصوبہ رہائش، تعلیم، حکمرانی اور دیگر 18 شعبوں پر محیط ہے اور اس کی تکمیل کے لیے تقریباً 65 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کا ہدف ہے کہ بارہ ماہ کے اندر غزہ میں مکمل طور پر فعال طور پر واپس آئے۔
منصوبے کی اہم نکات:
- منصوبہ تین مراحل پر مشتمل ہے اور اس میں پانچ سال کا ٹائم فریم رکھا گیا ہے۔
- بحالی میں رہائش، بنیادی ڈھانچہ، صحت، تعلیم، بجلی، پانی، روزگار اور حکمرانی شامل ہیں۔
- مصر اور اردن کے ساتھ پولیس ٹریننگ پروگرام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے جبکہ یورپی یونین کے ساتھ عبوری آپریشنز، کسٹمز اور مربوط پولیسنگ پر تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔
- منصوبے کا مقصد غزہ اور مغربی کنارہ کے درمیان سیاسی و انتظامی یکجہتی کو بحال کرنا اور مستقبل میں ایک قابلِ اعتماد فلسطینی حکومت کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
تاہم عملی اور سیاسی رکاوٹیں سنگین ہیں:
- اس وقت غیر یقینی ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی میں فلسطینی اتھارٹی کا کیا کردار ہوگا، خاص طور پر جب اسرائیلی قیادت بعض نکات پر اختلاف رکھتی ہے۔
- حماس اور اسرائیل کے درمیان لاشوں کی واپسی پر الزام تراشیاں جاری ہیں؛ حماس نے اب تک چند لاشیں واپس کی ہیں اور باقی ملبے میں دفن ہونے کی وجہ سے بازیابی مشکل بتا رہی ہے۔
- رپورٹس کے مطابق جنگ بندی کے بعد بھی بعض جگہوں پر فائرنگ اور فضائی کارروائیاں ریکارڈ ہوئیں، جو بحالی کے عمل کو پیچیدہ بنا سکتی ہیں۔
- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وارننگ دی ہے کہ اگر حماس غزہ میں عام شہریوں کے قتل و تشدد جاری رکھے گا تو “داخلی کارروائی” کی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس بیانیے سے خطے میں سیاسی کشیدگی برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ بحالی کے لیے بین الاقوامی حمایت، فنڈنگ اور تکنیکی مدد ضروری ہے، اور وہ اس حوالے سے عالمی برادری، خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور یورپی ممالک سے تعاون کی امید رکھتی ہے۔