لندن اس وقت یورپی سفارت کاری کا نیا مرکز بن گیا ہے، جہاں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور متعدد یورپی رہنما سکیورٹی اور خطے کی بدلتی سیاسی صورتحال پر اہم مشاورت کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ اجلاس کا مقصد یورپ میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام، سرحدی تناؤ اور توانائی سے متعلق خطرات کا جائزہ لینا ہے، جبکہ مختلف ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یورپی بلاک کو مضبوط اور متحد پالیسی کی ضرورت ہے۔
زیلنسکی کی جانب سے یہ اچانک دورہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ماسکو نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی تجویز کردہ سکیورٹی حکمتِ عملی کو ’’متوازن‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر مثبت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ کریملن کے اس بیان نے یورپی دارالحکومتوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا یہ پالیسی خطے میں کسی نئی سفارتی ساخت کو جنم دے سکتی ہے یا اس سے محاذ آرائی مزید بڑھے گی۔
لندن میں ہونے والی ملاقات میں دفاعی تعاون، اقتصادی مدد اور یوکرین کی مستقبل کی سکیورٹی حکمت عملی پر بھی گفتگو کی جائے گی۔ یورپی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اگر خطے میں کسی بھی طرح کا دباؤ کم کرنا ہے تو مشترکہ فیصلوں اور مربوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ اسی لیے اجلاس میں یورپی یونین، برطانیہ اور چند دیگر شراکت دار ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوں گے تاکہ سکیورٹی کے پہلوؤں کا جامع جائزہ لیا جا سکے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیلنسکی کا یہ دورہ نہ صرف سفارتی سرگرمیوں کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش ہے بلکہ یورپ کو ایک بار پھر متفقہ لائحہ عمل کی طرف لانے کی کوشش بھی ہے۔ دوسری جانب، روس کی جانب سے کسی بھی نئی عالمی حکمت عملی کی حمایت اس بات کا اشارہ ہے کہ مستقبل میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔ صورتحال کس سمت جائے گی، یہ آئندہ ملاقاتوں اور فیصلوں پر منحصر ہوگا۔
