جب مارشل لا ءلگتے ہیں سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں،چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں کہاہے کہ اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور ان کے 2سینئر ججز پر ہوتا ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور ان کے 2سینئر ججز پر ہوتا ہے،سوال ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم نہیں محدود کیا جارہاہے،چیف جسٹس کے اختیارات کو دیگر ججز کے ساتھ بانٹا جارہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹس پر بھی ہوگا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ بہتر ہے تمام ساتھی اس کیس کو سنیں، کوشش ہوگی آج کیس کااختتام کرلیں،ہمارے پاس اور بھی بہت سے مقدمات ہیں، شنوائی کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں بحث کرتے جائیں،ایک وقت میں ایک شخص آکر بات کرے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیس کرنے کا شوق ہے لیکن پٹیشنر عدالت میں نہیں ہے،مختصر بات کرنی ہے تو کریں،کوئی مزید بات کرنے چاہیں تو تحریری صورت میں دیدیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمارے پاس کافی مقدمے ہیں جو کہ بڑھتے جارہے ہیں،اب کوئی پورا نہ پڑھے ہم پورا ایکٹ پڑھ چکے ہیں۔درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو مخصوص شخص کیلئے بنایاگیا،اس قانون کو خاص وجہ سے بنایا گیا ہے،ایکٹ کے سیکشن 3میں 184تین کے کیسز کیلئے ججز کمیٹی بنائی گئی ہے ،سیکشن 3سے چیف جسٹس کے آئینی اختیار پر پارلیمنٹ نے تجاوز کیا،سیکشن 3آئین سے متصادم ہے۔وکیل درخواست گزار نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا سیکشن 5نظرثانی میں اپیل سے متعلق ہے،آرٹیکل 184تین میں ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکارتھی،پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے آئین کے آرٹیکل نہیں بدل سکتی،لٰہذا یہ شق بھی آئین سے متصادم ہے۔وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ایکٹ سے پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی کو بلڈوز کیا،ایکٹ کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے،جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتحال دیکھنا بھی ضروری ہے،پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے،وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے سپیکر کو تحریری کارروائی کے ریکارڈ کیلئے درخواست کی؟پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں،اگر آپ نے اپنی معلومات تک رسائی کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں،آپ نے خود سپیکر کو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر بے بنیاد دلیل سنے،وکیل اکرام چودھری نے کہاکہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کررہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں