نئی حلقہ بندیوں کیلئے وقت درکار ہو تو آئینی ترمیم کی جاسکتی ہے: مصدق ملک

اسلام آباد: وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہےکہ نئی حلقہ بندیوں کیلئے وقت درکار ہو تو آئینی ترمیم کی جاسکتی ہے جب کہ حکومت اور الیکشن کمیشن چاہے تو ایسی صورت میں عبوری آرڈر ہوسکتا ہے لیکن آئینی ترمیم ممکن نہ ہوئی تو پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔مزید مصدق ملک نےکہا کہ حکومت آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوجائے گی، نگران حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر الیکشن کروائے گی، ہمیں یقین ہے الیکشن 60 دن یا 90 دن میں ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن 60 دن میں بھی ہوسکتے ہیں، 55 دن میں بھی اور 65 دن میں بھی ہوسکتے ہیں، آئین میں الیکشن ملتوی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، الیکشن میں تاخیر کی گنجائش چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہانوں کیلئے نہیں ہے، جنگ یا کسی بڑی تباہی کی وجہ سے الیکشن ممکن نہ ہوں تو سمجھ آتا ہے۔مصدق ملک کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ کی خواہش اور کوشش ہے کہ وقت مقررہ پر اسمبلی تحلیل ہو اور الیکشن ہوں، نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں میں کچھ وقت لگے گا، نئی حلقہ بندیوں کیلئے وقت درکار ہو تو آئینی ترمیم کی جاسکتی ہے، حکومت اور الیکشن کمیشن چاہے تو ایسی صورت میں عبوری آرڈر ہوسکتا ہے، آئینی ترمیم ممکن نہ ہوئی تو پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت آئینی مدت پوری کرکے ایک دن بھی آگے نہیں جائے گی، الیکشن مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں جب کہ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق رانا ثنااللہ کا بیان پارٹی پالیسی ہے، کسی حلقہ میں اپنی دوست پارٹیوں کے ساتھ الحاق کی ضرورت پڑتی ہے وہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔ رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا کہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہی ہونے چاہئیں، مردم شماری کے نتائج کا آڈٹ تیز کیا جائے تو انتخابات کی تاریخ تک مکمل کیاجاسکتا ہے، مردم شماری پر پاکستان کا مسئلہ ایک طرف سندھ کا مسئلہ ایک طرف ہے، 7 اپریل کو بتایا گیا کراچی کی آبادی ایک کروڑ 35لاکھ ہے، وفاقی حکومت نے ہمارے تحفظات پر مردم شماری کی تاریخ آگے بڑھائی، تاریخ کے ختم ہونے پر کراچی کی آبادی میں 56 لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوا، ہم اس پر مطمئن نہیں کیونکہ کراچی کی آبادی اس سے بہت زیادہ ہے۔

مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ نئی مردم شماری اور تازہ حلقہ بندیوں کو انتخابات میں تاخیر کا جواز نہیں بننا چاہیے، نئی مردم شماری سے انتخابات میں ایک ماہ کا بھی فرق پڑتا ہے تو بڑی بات نہیں ہے، نئی مردم شماری کے بغیر انتخابات کروانا حقائق کو نہ ماننے جیسا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں